امریکی انتظامیہ نے نوبیل کمیٹی کے فیصلے پر سخت ردعمل کا ظاہر کیا ہے۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان اسٹیون چیونگ (Steven Cheung) نے کہا:“صدر ٹرمپ نے امن قائم کرنے کے لیے حقیقی جدوجہد کی۔ انہوں نے جنگیں ختم کیں، معاہدے کیے اور بے شمار جانیں بچائیں۔ نوبیل کمیٹی کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امن سے زیادہ سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔”کمیٹی نے ٹرمپ کا نوبیل انعام نہ دیکر سیاست کھیلی۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ٹرمپ اس فیصلے سے مایوس نہیں بلکہ وہ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ دنیا میں امن اور استحکام قائم ہو

خیال رہے کہ رواں سال کے لیے امن کے نوبیل انعام کا اعلان کردیا گیا، معزز ترین اعزاز نوبیل انعام برائے امن 2025 وینزویلا کی ماریا کورینا مچاڈو نے اپنے نام کر لیا۔ وائٹ ہاوس کے ایک میسج میں کہا گیا کہ نوبیل انعام جیتنے والی وینزویلا کی اپوزیشن سیاستدان نے یہ انعام صدر ٹرمپ سے منسوب کر دیا ہے۔

نوبیل کمیٹی کا کہنا ہے کہ امن نوبیل انعام وینزویلا کی جمہوریت نواز رہنما ماریا کورینا مچاڈو کے نام رہا۔

واضع رہے کہ صدر ٹڑمپ تقریباً آدھی درجن کے قریب عوامی سطح پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ وہ امن کے نو بیل انعام کے حقدار ہیں۔ لیکن نوبیل انعام کا فیصلہ کر نے والی کمیٹی کی غیر جانبداری کی وجہ سے اس انعام کو دنیا میں اہمید دی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کمیٹی نے دنیا کے طاقتور انسان کو نو بیل انعام کا حقدار نہیں سمجھا۔
ولادیمیر پوٹن کا ردعمل
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے نوبیل کمیٹی کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ:“نوبیل انعام کی ساکھ اب کمزور ہوتی جا رہی ہے۔، خاص طور پر جب وہ ان لوگوں کو دیے جائیں جو دنیا میں کوئی حقیقی کردار ادا نہیں کرتے۔”پوتن نے ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ “پیچیدہ عالمی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں” اور ان کی امن پالیسیوں کو عالمی سطح پر سراہا جانا چاہیے تھا۔
وزیراعظم نییتن یاہہو کا بیان
اسرائییلیی وزیراعظم جو ٹرمپ کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، نے بھی اس فیصلے پر نوبیل کمیٹی کو تنقید کا نشانہ بنا تے ہوئے کہا کہ نوبیل کمیٹی امن کی بات کرتی ہے، مگر صدر ٹرمپ نے امن کو حقیقت میں بدل کر دکھایا۔ ان کے ابراہیم معاہدے (Abraham Accords) مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا سب سے اہم امن اقدام تھا۔ٹرمپ کویہ انعام نہ دیا گیا جو کہ عالمی انصاف کے لیے مایوس کن لمحہ ہے۔
اب تک کتنے امریکی صدور کو امن کا نوبیل انعام مل چک ہے۔
چار امریکی صدور ایسے ہیں جن کو امن کا نوبیل انعام مل چکا ہے ان میں پہلے تھیوڈور روزویلٹ کو 1906 میں روس اور جاپان کے درمیان جنگ ختم کرانے میں ثالثی کے کردار پر یہ انعام دیا گیا۔ اس کے بعد ووڈرو ولسن کو 1919 میں پہلی عالمی جنگ کے بعد عالمی امن کی تنظیم لیگ آف نیشنز کی بنیاد رکھنے پر نوبیل امن انعام ملا۔ کئی دہائیوں بعد جمی کارٹر کو 2002 میں انسانی حقوق، جمہوریت اور عالمی تنازعات کے حل کے لیے ان کی خدمات پر اس اعزاز سے نوازا گیا، جبکہ براک اوباما کو 2009 میں عالمی سفارتکاری اور جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے ابتدائی کوششوں پر نوبیل امن انعام دیا گیا۔

