• Home  
  • نجی میڈیکل کالجز — تعلیم کے نام پر ناپاک کاروبار کا نیا روپ
- خاص رپورٹ

نجی میڈیکل کالجز — تعلیم کے نام پر ناپاک کاروبار کا نیا روپ

تحریر: عبدالرزاق چشتی پاکستان میں نجی میڈیکل کالجز کا نظام تعلیم ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکا ہے جہاں تعلیم نہیں بلکہ کاروبار پنپ رہا ہے۔ وہ ادارے جو کبھی مسیحائی کے خواب دیکھتے تھے، آج خود بیماری کا استعارہ بن چکے ہیں۔ منافع کی دوڑ نے علم اور خدمت کو پسِ پشت ڈال دیا […]

تحریر: عبدالرزاق چشتی

پاکستان میں نجی میڈیکل کالجز کا نظام تعلیم ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکا ہے جہاں تعلیم نہیں بلکہ کاروبار پنپ رہا ہے۔ وہ ادارے جو کبھی مسیحائی کے خواب دیکھتے تھے، آج خود بیماری کا استعارہ بن چکے ہیں۔ منافع کی دوڑ نے علم اور خدمت کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ریاست کی خاموشی، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، اور انتظامی بے حسی سب ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے 2018 میں ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا کہ نجی میڈیکل کالجز فی طالب علم سالانہ 9 لاکھ روپے سے زائد فیس وصول نہیں کریں گے۔ مقصد واضح تھا — متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے ڈاکٹری کے دروازے کھلے رکھنا۔ لیکن چند ہی برسوں بعد اس فیصلے کو ایسے نظر انداز کیا گیا جیسے کبھی وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ 2024–25 میں وزیرِ اعظم کی ہدایت پر قائم اسحاق ڈار کمیٹی نے فیس کی نئی حد 18 لاکھ روپے سالانہ مقرر کر دی، حالانکہ وزارتِ صحت اور پی ایم ڈی سی کی ماہرین کمیٹی نے زیادہ سے زیادہ 12 لاکھ روپے کی تجویز دی تھی۔اس کے باوجود بیشتر نجی کالجز نے 28 لاکھ روپے تک فیس وصول کی — اور جب طلبہ نے احتجاج کیا تو پی ایم ڈی سی نے وعدہ کیا کہ اضافی وصولی واپس کرائی جائے گی۔ مگر وہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا۔

سوال یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کی مقرر کردہ حد کو کس قانون کے تحت تبدیل کیا گیا؟ اور اگر تبدیلی ضروری تھی تو طالب علموں کے مفاد کے برعکس کیوں کی گئی؟نجی میڈیکل کالجز نے اپنی من مانی فیسوں کو قانونی تحفظ دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکمِ امتناعی لے لیا۔ حیرت انگیز طور پر ان کی پٹیشن میں پی ایم ڈی سی ایکٹ 2022 کی وہ شق مکمل طور پر پیش ہی نہیں کی گئی جو کہتی ہے کہ کسی بھی اضافے کے لیے پی ایم ڈی سی کی پیشگی منظوری ضروری ہے۔ خود پی ایم ڈی سی کے صدر ڈاکٹر رضوان تاج واضح کر چکے ہیں کہ بغیر منظوری کے فیسوں میں اضافہ غیر قانونی ہے۔ پھر بھی ادارے طلبہ اور والدین کو مسلسل لوٹ رہے ہیں۔

یہ معاملہ صرف فیسوں کا نہیں، انصاف کے نظام کی کمزوری کا ہے۔ کالجز عدالتی احکامات سے بچ نکلتے ہیں، حکومت خاموش رہتی ہے، اور طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ حکومت اور ادارے نجی کالجز کے دباؤ کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں حکومتی و سیاسی اشرافیہ کی سرمایہ کاری موجود ہے، اسی لیے وزارتِ صحت، صوبائی حکومتیں اور خود پی ایم ڈی سی بھی واضح اقدام کرنے سے گریز کرتی ہیں۔طلبہ پچھلے چند سالوں میں بارہا احتجاج کر چکے ہیں۔ وہ نہ صرف ناجائز فیسوں بلکہ غیر شفاف امتحانی نظام کے خلاف بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ مگر ہر بار پولیس کا تشدد، کالج انتظامیہ کی دھمکیاں اور حکومت کی خاموشی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہے۔

یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے میڈیکل پیشہ انسانیت کی خدمت کے لیے چنا تھا، مگر آج وہ خود ناانصافی کے شکار ہیں۔پی ایم ڈی سی نے بارہا وزارتِ صحت کے ذریعے حکومت کو آگاہ کیا کہ متعدد نجی ادارے 2022–23 اور 2023–24 کے سیشنز میں غیر قانونی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ لیکن کارروائی کہیں نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود عمل درآمد نہ ہونے کا سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ کیا ریاست تعلیم کو مکمل طور پر سرمایہ دارانہ منڈی کے حوالے کر چکی ہے؟جب تعلیم ایک کاروبار بن جائے تو میرٹ اور خدمت کا جذبہ دفن ہو جاتا ہے۔ متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کے لیے گھر بیچ دیتے ہیں، قرض لیتے ہیں، مگر داخلے کے بعد فیسوں، پالیسی تبدیلیوں اور امتحانی شقوں کا ایک نیا شکنجہ ان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ صرف وہی ڈاکٹر بن پاتا ہے جس کے والدین کی جیب اجازت دے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست، عدلیہ اور پی ایم ڈی سی اس استحصالی نظام کے خلاف ایک مؤثر قدم اٹھائیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ:سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق فیسوں کی حد کو دوبارہ قانونی حیثیت دے کر سختی سے نافذ کیا جائے۔نجی کالجز کی فیسوں اور امتحانی نظام کا سالانہ آڈٹ عوام کے سامنے لایا جائے۔ایک طلبہ حقوق کمیشن قائم کیا جائے جو فیسوں، بدعنوانی اور تشدد سے متعلق شکایات سنے، اور جس میں طلبہ، والدین اور سول سوسائٹی کی نمائندگی ہو۔حکومت کم آمدنی والے طلبہ کے لیے خصوصی وظائف اور تعلیمی قرضوں کا بندوبست کرے۔فیسوں کی وصولی براہِ راست کالجز کے بجائے پی ایم ڈی سی یا صوبائی یونیورسٹیوں کے ذریعے کی جائے تاکہ شفافیت یقینی بن سکے۔یہ بحران صرف تعلیمی نہیں بلکہ اخلاقی اور سماجی مسئلہ ہے۔ اگر اب بھی خاموشی رہی تو میڈیکل تعلیم ہمیشہ کے لیے امراء کے قبضے میں چلی جائے گی۔

تعلیم کو منافع نہیں، قوم کی امانت سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم نے اپنے طلبہ کا ساتھ نہ دیا، تو کل وہی نوجوان جو قوم کے زخم بھرنے والے تھے، خود ناانصافی کے زخموں سے نڈھال ہوں گے — اور پھر کوئی بھی اس قوم کو شفا نہیں دے سکے گا۔

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اردو رپورٹ جملہ حقوق محفوظ ہیں