حکومت نے اب 27ویں آئینی ترمیم لانے پر مشاورت شروع کر دی ہے اور وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی سے اس ضمن میں تعاون کی درخواست کر دی ہے،ملک میں ایک بار پھر آئینی عدالت کے قیام کی کو شش کی جا ئے گی اور 26 ویں آئینی ترمیم کے نا مکمل ایجنڈے کو پورا کیا جائے گا۔
ملک میں27 ویں آئینی ترمیم کی تجویز زیر غور ہے اس میں آئینی عدالت کے قیام کے ساتھ ساتھ ججوں کے تبادلے اور مسلح افواج سے متعلق آرٹیکل 243 میں بھی ترمیم زیر غور ہے۔
مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں قومی مالیاتی کمیشن کے تحت صوبائی شیئر کم کرنے پر پابندی کے خاتمے،ایگزیکٹیو مجسٹریٹس، تعلیم اور بہبود آبادی کی وزارتوں کی وفاق کو دوبارہ منتقلی،چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر موجود ڈیڈ لاک کا خاتمہ سمیت کئی امور زیرِ غور ہیں۔
پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ان کی پارٹی کی حمایت کی درخواست کی ہے۔
پیر کے روز بلاول بھٹو نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا ایک وفد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ان سے اور صدر آصف علی زرداری سے ملا اور پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حمایت کی درخواست کی۔ صدر زرداری کی دوحہ سے واپسی پر چھ نومبر کو اس معاملے پر پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہو گا۔
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ آئینی عدالت کا قیام 26ویں آئینی ترمیم کے ایجنڈے کا حصہ تھا جبکہ مسلح افواج سے متعلق آرٹیکل 243 میں تبدیلی اس لیے زیرِ غور ہے کیونکہ آرمی چیف عاصم منیر کو دیے گئے فیلڈ مارشل کے اعزاز کو ’آئینی کوور‘ دینے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا باضابطہ طور پر تاحال 27ویں ترمیم کے لیے کسی مسودے پر کام شروع نہیں کیا گیا مگر بات چیت چل رہی ہے۔
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اب بھی ’ایسے آزاد ججز موجود ہیں جو بعض اوقات شور مچاتے ہیں۔ اس خدشے کا اظہار کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اختلاف کرنے والے ججز کے تبادلے کیے جا سکتے ہیں یا انھیں غیر متعلقہ بنایا جا سکتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں
اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر مکمل ڈیجیٹل کیش لیس آپریشن کا آغاز – urdureport.com
وزیر مملکت برائے قانون کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے موجود ڈیڈ لاک ختم کرنا چاہتی ہے۔ آئین میں واضح ہے کہ اس عہدے پر تعیناتی کے لیے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی جاتی ہے تاہم ’ڈیڈلاک جاری رہتا ہے تو اسے حل کرنا بھی ضروری ہے۔ اب اگر اپوزیشن لیڈر نہ ہو اور وہ چیز تاخیر کا شکار ہو رہی ہے تو کم از کم ان حالات میں بھی آپ کو راستہ نکالنا ہوتا ہے۔‘

