سپریم کورٹ نےگھریلو تشدد اور عورت کو نکاح ختم کرنے کے حق سے متعلق اہم فیصلہ جاری کردیا ہے اور اس ضمن میں پشاور ہائیکورٹ اور فیملی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق تشدد کے لیے جسمانی زخم شرط نہیں بلکہ ظلم ہر ایسے رویے پر مشتمل ہے جو عورت کو دکھ، مایوسی اور اعتماد کی کمی سے دوچار کرے، اگر اثرات تکلیف دہ اور شدید ہوں اور ازدواجی زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے تو یہ ظلم کہلائے گا۔
سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے 17 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ، فیصلے کے مطابق انٹرنیشنل کنویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس جسمانی اذیت اور ظالمانہ، غیر انسانی یا تحقیر آمیز سلوک کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ ظلم الگ الگ حرکات پر مشتمل ہو سکتا ہے ، مجموعی طور پر نقصان پہنچانا اور عورت کے لیے نکاح میں رہنا ناقابل برداشت بنانا بھی ظلم ہے، ظلم میں ذہنی اذیت دینا، گالم گلوچ کرنا یا جھوٹے الزامات لگانا بھی شامل ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ازدواجی زندگی میں نفسیاتی اذیت جسمانی تشدد جتنی سنگین ہے، اجازت کے بغیر شوہر کی دوسری شادی تنسیخ نکاح کے لیے جائز بنیاد ہے، عدالتوں کو خواتین سے متعلق محتاط الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔
فیصلے میں کہا گیاہے کہ پارلیمنٹ نے ظلم کی تعریف قانون میں مختلف مثالیں دے کر اس کی نوعیت اور دائرہ کار کو واضح کیا ہے، قانون میں دی گئی مثالیں حتمی نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے وضاحت کے طور پر دی گئی ہیں، عدالتوں کو گنجائش حاصل ہے کہ وہ ظلم کی مختلف صورتوں کو پہچان سکیں۔
عدالت نے لکھا کہ ظلم صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں ہے، ایسا طرز عمل جو ذہنی یا جذباتی اذیت پہنچائے وہ بھی ظلم میں آتا ہے، ہماری عدالتوں نے ظلم کو ایسے رویے کے طور پر بیان کیا ہے جو صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں۔
یہ بھی پڑھیں
تحریک لبیک پر پابندی حکومت کا سپریم کورٹ میں ریفرنس نہ بھجوانے کا فیصلہ – urdureport.com
سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے خلاف دو شکایات میں مزید کاروائی – urdureport.com

