تحریر: عبیدالرحمٰن عباسی

آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک بار پھر غیر معمولی سیاسی ہلچل کا شکار ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد کی ڈرامائی کامیابی کے بعد سابق وزیرِاعظم کو اُنہی ایوانوں میں شکست ہوئی جہاں وہ چند ماہ پہلے مکمل اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئے تھے۔ اُن کی جگہ ایک نئے وزیرِاعظم کا انتخاب ہوا—جو اتفاقاً یا حیرت انگیز طور پر سابق وزیراعظم کے صاحبزادے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف آزاد کشمیر کی سیاسی ساخت میں نئی بحث چھیڑ رہی ہے بلکہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کر رہی ہے کہ آزاد کشمیر میں خاندانی سیاست نہ صرف زندہ ہے بلکہ دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
یہ لمحہ محض سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ایسے رجحان کا تسلسل ہے جس نے ریاستی سیاست کی جمہوری بنیادوں کو کمزور کیا ہے۔ ماضی میں بھی آزاد کشمیر میں اقتدار کا سلسلہ خاندانوں کے ہاتھ میں مرتکز رہا ہے۔ سب سے نمایاں مثال مسلم کانفرنس کے بانی رہنما سردار عبدالقیوم خان کے بعد ان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان کا وزیرِاعظم بننا ہے۔ اس مثال نے برسوں پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ آزاد کشمیر میں اقتدار نظریاتی جماعتی سیاست کے بجائے خاندانی وراثت کے تحت چل سکتا ہے۔
آج جب باپ کے بعد بیٹا وزیرِاعظم بن چکا ہے، تو یہ سوال مزید گہرا ہو گیا ہے کہ کیا آزاد کشمیر کی قیادت چند مخصوص خاندانوں کی موروثی جاگیر بنتی جا رہی ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ سردار عتیق احمد خان کے صاحبزادے بھی سیاسی میدان میں متحرک ہو چکے ہیں، اور سیاسی تجزیہ نگار اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ مستقبل میں وہ بھی وزیرِاعظم بن سکتے ہیں—یوں آزاد کشمیر میں سیاسی وراثت کے ایک سے زیادہ سلسلے بیک وقت چل رہے ہوں گے۔
تحریک عدم اعتماد — اصول پر مبنی اقدام یا سیاسی اسٹیج مینجمنٹ؟
نئے وزیرِاعظم کے انتخاب سے زیادہ بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ تبدیلی کیوں اور کس کے ایجنڈے کے تحت کی گئی؟
سیاسی حلقوں میں رائے عامہ واضح طور پر منقسم ہے۔ ایک طبقہ اسے جمہوری عمل قرار دیتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اسے ایک سوچی سمجھی لابنگ، گروہ بندی اور سیاسی خاندانوں کے مفادات کے تحفظ کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
چند اہم سوالات جو سامنے آئے:
کیا سابق وزیرِاعظم واقعی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہٹائے گئے؟
یا اُن کے خلاف عدم اعتماد پارٹی دھڑوں کے مفادات اور طاقت کے توازن کے تحت لائی گئی؟
کیا یہ تبدیلی مرکز کی سیاسی ضروریات کا اثر تھی؟
یا آزاد کشمیر میں چند خاندانوں کے اثر و رسوخ کا نتیجہ؟:
ان سوالات کے جواب آنے والے ہفتوں میں سامنے آئیں گے، لیکن فی الحال ایک چیز واضح ہے: یہ تبدیلی جمہوری استحکام کی نہیں بلکہ سیاسی بے یقینی کی نشانی ہے۔
خاندانی سیاست کا نیا جنم
آزاد کشمیر میں خاندانی سیاست کوئی نئی بات نہیں، مگر موجودہ تبدیلی نے اسے پہلے سے زیادہ طاقتور بنا دیا ہے۔
باپ کے بعد بیٹے کا وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنا، اور مستقبل میں ایک اور سیاسی خاندان کے وارث کا اُبھرتا ہوا کردار، یہ ظاہر کرتا ہے کہ آزاد کشمیر میں سیاسی میرٹ محدود ہوتا جا رہا ہے۔
یہ صورتحال چند اہم خدشات کو جنم دیتی ہے:
کیا آزاد کشمیر میں قیادت صرف ایک مخصوص طبقے کے اندر گردش کرے گی؟
کیا نوجوان قیادت یا نظریاتی کارکن کبھی وزیرِاعظم بننے کے قابل سمجھے جائیں گے؟
کیا اسمبلی کے فیصلے عوامی جذبات کے بجائے خاندانی دباؤ کے تحت ہوں گے؟
یہ تاثر آزاد کشمیر کی جمہوری سیاست کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
سیاسی عدم استحکام — آنے والے مہینے مزید سخت ہوں گے
نیا وزیرِاعظم ایک مخلوط اور بظاہر کمزور اکثریت کے ساتھ آئے ہیں۔
ان کے ساتھ چند وہی ارکان شامل ہیں جو کل ہی سابق وزیرِاعظم کے وفادار تھے۔
جمہوری روایات میں یہ لچک نہیں بلکہ وفاداریوں کی خریدوفروخت، مصلحت اور وقتی مفادات کا کھیل سمجھا جاتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہاتحاد زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گا
حکومت پالیسیوں کے بجائے جوڑ توڑ اور تعلقات میں مصروف رہے گی
ہر فیصلہ باہمی مفادات اور دباؤ کے تحت ہوگا
یہ سیاسی عدم استحکام براہِ راست کشمیر کاز کو متاثر کرے گا، جو پہلے ہی عالمی سطح پر چیلنجز کا شکار ہے۔
کشمیر کاز — سیاست کا سب سے بڑا خسارہ
آزاد کشمیر کی حکومت دنیا بھر میں کشمیر کے سفارتی، انسانی اور سیاسی مقدمے کی نمائندگی کرتی ہے۔
لیکن جب حکومتیں:
عدم اعتمادگروہی تقسیم:
خاندانی تنازعات اور اقتدار کی وراثت
میں الجھی ہوں تو کشمیر کاز پس منظر میں جا کھڑا ہوتا ہے۔
بھارت پہلے ہی پاکستان اور آزاد کشمیر کے اندرونی سیاسی انتشار کو عالمی فورمز پر بطور دلیل استعمال کرتا ہے۔
تازہ تبدیلی نے اسے ایک بار پھر یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کی سیاست کو غیر سنجیدہ، غیر مستحکم اور باہمی لڑائیوں سے بھرپور قرار دے۔
یہ صرف ایک سیاسی نقصان نہیں بلکہ سفارتی سطح پر بھی خطرناک صورتحال ہے۔
عوامی ردعمل — بے بسی اور مایوسی
جمہوریت کا اصل مالک عوام ہوتے ہیں، مگر آزاد کشمیر کے شہری ایک بار پھر اس حقیقت سے دوچار ہیں کہ:
حکومت عوام کے ووٹ سے نہیں
بلکہ خاندانوں اور دھڑوں کے فیصلوں سے بنتی ہے
یہ تاثر نوجوانوں میں جمہوریت کے خلاف مایوسی کو جنم دے رہا ہے۔
سیاسی عمل سے لاتعلقی، ریاست کیلئے نہایت خطرناک مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔
آزاد کشمیر کے لیے کیا اصلاحات ضروری ہیں؟
اگر آزاد کشمیر کی سیاست کو واقعی صحت مند اور جمہوری بنانا ہے تو چند بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں:
- سیاسی جماعتوں میں اندرونی الیکشن لازم ہوں
- خاندانی سیاست کے خلاف پارٹی سطح پر قواعد بنائے جائیں
- وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے عمل کو شفاف بنایا جائے
- ارکانِ اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنے پر سخت قوانین نافذ ہوں
- کشمیر کاز کو حکومتی سیاست سے الگ رکھا جائے، اسے ریاستی بیانیے کے طور پر مضبوط کیا جائے
آزاد کشمیر میں باپ کے بعد بیٹے کا وزیرِاعظم بن جانا بظاہر ایک سیاسی عمل ہے، مگر درحقیقت یہ آزاد کشمیر میں سیاسی میراث داری کے مستقل رجحان کی واضح علامت ہے۔
مزید یہ کہ سردار عتیق احمد خان کے صاحبزادے کا بھی سیاست میں سرگرم ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ مستقبل میں ایک اور سیاسی خاندان بھی وزارتِ عظمیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔
اگر خاندانی سیاست کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، تو آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت محض چند خاندانوں تک سمٹ کر رہ جائے گی—اور سب سے بڑا نقصان ریاستی اداروں، عوامی مفاد اور کشمیر کاز کو ہوگا

